” پنجاب میں قحط سالی کا خدشہ، خطرے سے خبردار کر دیا گیا ” | GNN INFO
”
اسلام آباد(ابوبکر خان، ہم انویسٹی گیشن )پنجاب میں غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے قحط سالی کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ آڈٹ ٹیم کی جانب سے مرتب شدہ جائزہ رپورٹ میں پنجاب میں غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے آئندہ دو دہائیوں قحط سالی کا خدشہ کا ظاہر کیا گیا ہے۔
جائزہ رپورٹ میں آڈٹ ٹیم نے پنجاب میں غذائی تحفظ کو غیر مستحکم اور غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، حکومت کی غلط پالیسیاں، غیر مستحکم اور وسیع ایکشن پلان کا نہ ہونا پنجاب میں غذائی تحفظ کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
نیوزی لینڈ سیریز: قومی ٹیم کا اعلان 5 اپریل تک متوقع، شاہین کو آرام دینے کی تجویز
جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 سے 2021 تک پنجاب حکومت نے مختلف سیکٹرز کو 367 ارب سے زائد سے زائد سبسڈی دی، جس میں خوراک پر سب سے زیادہ 307 ارب سے زائد، ٹرانسپورٹ پر 32 ارب جبکہ زراعت پر 27 ارب سے زائد سبسڈی دی گئی۔
سبسڈی پر جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اخراجات کے پیٹرن زراعت کو ایک معمولی رقم مختص کی گئی تھی تاکہ پیداواری لاگت کو کم کیا جا سکے۔
علاوہ ازیں، جائزہ رپورٹ نے ماضی میں خشک سالی کا بھی زکر کیا اور بتایا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد پنجاب نے شدید خشک سالی کا سامنا کیا اور خطرہ ابھی بھی برقرار ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور گلوبل وارمنگ پر بتایا کہ عالمی اوسط درجہ حرارت کے ہر ڈگری سیلسیس میں اضافہ سے اوسطاً گندم کی عالمی پیداوار میں 6 فیصد کمی کرے گا۔
جائزہ رپورٹ کے مطابق اربنائزیشن کا بڑھتا ہوا رجحان زرعی زمین کو سکڑنے کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں گندم کی طلب میں اضافہ کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور صوبہ پنجاب میں غذائی تحفظ کی حالت آئندہ دو دہائیوں میں مزید خراب ہو سکتی ہے۔
جائزہ رپورٹ نے اس اہم معاملے پر اپنی سفارشات میں بتایا کہ یہ مسئلہ راتوں رات نہیں ابھرا بلکہ کئی سالوں میں آہستہ آہستہ اور مستقل طور پر خطرناک حد ہوگیا ہے۔ گندم کی فصل کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل نے غذائی تحفظ کے لیے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ گندم کی پیداوار ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے مطابق نہیں بڑھی جبکہ پنجاب میں گندم آہستہ آہستہ کسانوں کے لیے کم قابل عمل فصل بن گئی ہیں۔
سائنوٹیک سولر پرائیویٹ لمیٹڈ نے پاکستان میں سرمایہ کاری آغاز کردیا
دوسری جانب پیداواری لاگت میں اضافہ بتدریج متبادل فصلوں کی ترجیحات جیسے مکئی، آلو کی طرف آشکار ہورہے ہیں۔ متبادل فصلوں کی ترجیحات میں جانے ایک شدید بحران کو جنم اور حالات پریشان کن ہوسکتے ہیں۔ صارفین کی طرف سے قیمتوں میں فرق، ممکنہ اسمگلنگ اور فلور ملوں کی غیر منصوبہ بند مشروم کی افزائش سمیت متعدد گھریلو عوامل کے ذریعے آٹے کی دستیابی غیر متوقع ہے۔
گندم کو ذخیرہ کرنے کی محدود گنجائش ہے جس کی وجہ سے گندم کی درآمد کے آپشن کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ درآمد سے زرمبادلہ کے ذخائر کم جبکہ صارفین کے لیے آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
ایسے حالات سے منٹنے کےلئے وسیع البنیاد تدارکاتی ایکشن پلان کے گرد گھومتے ہوئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ گندم کی فراہمی، تقسیم اور قیمتوں کے کنٹرول کے ذریعے اس کی غذائی تحفظ ملک کے معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے کافی اہم ہے۔
اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ملکی دور اندیش پالیسیاں بنائی جائیں۔ جن بنیادی شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ان میں کم از کم امدادی قیمت کے تخمینے پر نظرثانی کرنا، ٹارگٹڈ سبسڈیز کو چینلائز کرنا، گورننس کے خلا کو دور کرنا اور ایک اچھی طرح سے سوچے گئے ایکشن پلان کی بنیاد پر اصلاحاتی ایجنڈے کو بہتر بنانا شامل ہیں۔
ججز خط معاملہ، جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے انکوائری کمیشن سربراہی سے انکارکر دیا
جائزہ رپورٹ میں ان اقدامت پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد اور ان کی مکمل نگرانی کرنے پر زور دیا ہے، تاکہ گندم کی فصل کے حوالے سے غذائی تحفظ کو بہتر بنایا جا سکے، اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان آنے والے مستقبل میں خوراک سے محفوظ ملک رہے۔
”